Summary
سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی/ ان کے عظیم کارناموں کی ایک جھلک
تعارف
سلطان صلاح الدین ایوبی، جو مغربی دنیا میں زیادہ تر صلاح الدین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اسلامی اور عالمی تاریخ کے ایک مشہور ترین شخصیت ہیں۔ وہ 1137 میں عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ اور ایک ایسے لیڈر کے طور پر ابھرے جنہوں نے مسلم دنیا کو متحد کیا۔ اور صلیبیوں سے یروشلم کو واپس حاصل کیا۔ ان کی میراث ان کی شجاعت، حکمت عملی، اور انصاف پسندی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہے۔
ابتدائی زندگی اور اقتدار میں اضافہ
صلاح الدین ایک کرد خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ جو ایوبی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے والد، نجم الدین ایوب، اور چچا، شیرکوه، نمایاں فوجی کمانڈر تھے۔ صلاح الدین کی ابتدائی تعلیم میں مذہب، جنگی حکمت عملی، اور ریاستی امور شامل تھے۔ وہ پہلی بار مصر میں اپنے چچا شیرکوه کے ماتحت خدمات انجام دینے کے دوران نمایاں ہوئے۔ جہاں انہیں صلیبیوں اور فاطمیوں سے علاقہ واپس حاصل کرنے کا کام سونپا گیا۔
شیرکوه کی وفات کے بعد، صلاح الدین 1169 میں مصر کے وزیر بنے اور جلد ہی سلطان بن کر ایوبی خاندان کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے مصر میں سنی اسلام کو دوبارہ قائم کیا، جو شیعہ فاطمیوں کے زیر حکمرانی تھا، اور صلیبیوں کے خلاف علاقے کی دفاع کو مضبوط کیا۔
مسلم دنیا کا اتحاد
صلاح الدین کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک بکھری ہوئی مسلم دنیا کا اتحاد تھا۔ سفارت کاری، فوجی مہارت، اور اسٹریٹیجک شادیوں کے ذریعہ، انہوں نے شام، مصر، اور میسوپوٹیمیا کے کچھ حصوں کو اپنے قیادت کے تحت اکٹھا کیا۔ یہ اتحاد صلیبی ریاستوں کے خلاف ان کی کوششوں میں انتہائی اہم تھا۔
جنگ حطین
4 جولائی 1187 کو لڑی گئی جنگ حطین صلیبی جنگوں میں ایک اہم موڑ تھا۔ صلاح الدین کی فوجوں نے صلیبی فوج کو فیصلہ کن شکست دی، جس سے یروشلم کی دوبارہ فتح کی راہ ہموار ہوئی۔
یروشلم کی دوبارہ فتح
2 اکتوبر 1187 کو، صلاح الدین نے یروشلم کو دوبارہ فتح کر لیا۔ جسے 88 سال سے صلیبیوں نے قبضے میں رکھا ہوا تھا۔ صلیبیوں کے برعکس، جنہوں نے 1099 میں شہر پر قبضہ کرتے وقت مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا تھا۔ صلاح الدین کے داخلے کی خصوصیت رحم دلی اور برداشت سے تھی۔ انہوں نے عیسائیوں کو شہر سے پرامن طور پر جانے کی اجازت دی اور یہودیوں اور عیسائیوں کو عبادت کی آزادی دی۔
شجاعت اور انصاف کی میراث
صلاح الدین کی شہرت ان کے فوجی کارناموں سے آگے بڑھ کر تھی۔ انہیں ان کی شجاعت، سخاوت، اور انصاف پسندی کے لئے جانا جاتا تھا۔ وہ اکثر پکڑے گئے دشمنوں کے ساتھ احترام اور شائستگی سے پیش آتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے دشمن بھی ان کی تعریف کرتے تھے۔ تیسری صلیبی جنگ کے دوران ان کے مخالف، رچرڈ شیر دل، ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک باہمی، اگرچہ مخالفانہ، احترام پیدا ہو گیا۔
وفات اور میراث
سلطان صلاح الدین ایوبی 4 مارچ 1193 کو دمشق میں وفات پا گئے۔ ان کی وفات مسلم دنیا کے لئے ایک بہت بڑا نقصان تھی۔ انہیں اموی مسجد کے قریب ایک سادہ قبر میں دفن کیا گیا، جو ان کی عاجزی کا ثبوت ہے۔
صلاح الدین کی میراث اسلامی اتحاد اور غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر زندہ ہے۔ ان کی زندگی اور اقدامات آج بھی دنیا بھر میں رہنماؤں اور افراد کے لئے ایک تحریک کا ذریعہ ہیں۔
نتیجہ
سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی ان کی غیر معمولی قیادت، حکمت عملی کی چمک، اور انصاف پسندی کے عزم کی گواہی دیتی ہے۔ ان کی مسلم دنیا کو متحد کرنے کی صلاحیت اور دشمنوں کے ساتھ شجاعانہ سلوک نے تاریخ پر ایک ناقابل مٹنے والا نشان چھوڑا ہے۔ آج، انہیں نہ صرف ایک عظیم جنگجو کے طور پر، بلکہ شرافت اور سالمیت کی مثال کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔
—