The Request To Stop The Proceedings Of Military Courts Has Been Rejected

Stop the Proceedings of Military Courts has been Rejected
Sharing is Caring
Reading Time: 10 minutes

The Request to Stop the Proceedings of Military Courts has been Rejected

Request to Stop the Proceedings of Military Courts. Supreme court heard the pleas of civilian against trials in military courts. Chief Justice Omar Ata Bandial presided over a 6-member larger bench consisting of Justice Ajaz ul Ahsan, Justice Muneeb Akhtar, Justice Yahya Afridi, Justice Mazhar Naqvi, and Justice Ayesha Malik. The court conducted the hearing. After the confirmation by Attorney General Mansoor Usman Awan, the request to halt the proceedings of military courts was rejected. And the hearing was adjourned until the second week of July.

After a break of half an hour, the hearing resumed. And Justice Yahya asked Attorney General Mansoor Usman Awan to provide them with complete facts.

The Attorney General stated that he had provided all the details, including written submissions, and informed the Chief Justice that the incident of May 9 occurred, after which the process of referencing the accused began, and most of the proceedings are in the rolls.

The Chief Justice inquired if all the legal requirements were fulfilled in the process of taking the accused into custody.

The Attorney General informed the court that this file contains complete details of 102 individuals, and meetings with individuals under custody can be arranged on a weekly basis. Parents and other family members can meet the relevant officer once a week by submitting a request. There is no issue regarding the provision of food to the accused.

The Chief Justice stated that during visits to jails, the accused are allowed to communicate with their families, and they are given a few minutes to talk. You yourself mentioned that no charges have been framed against the accused yet.

Justice Yahya Afridi raised a question, asking how nominees were named when there are no charges against the accused. It should be ensured first by contacting the parents of the individuals under custody. Justice Ayesha Malik said it is a simple question why the list of individuals under custody in protective custody is not made public.

The Attorney General stated that he will inform the court to announce the public list within an hour. The health facilities are available to all individuals under custody, and doctors are present. There is no issue regarding their meals. However, he acknowledged that incidents have occurred regarding journalists and lawyers. He also mentioned that he will talk to Riaz Hanif Rahi to resolve his complaint.

The Chief Justice stated that lawyers should be provided complete protection, and everyone should have a chance to communicate with their families during Eid. Everyone should know who is in protective custody.

The Chief Justice directed the Attorney General to establish contact between the accused and their families today.

Attorney General Mansoor Usman Awan reassured the Supreme Court that all the demands for the trial according to the law will be met. The investigations are currently underway, and once the investigations are finalized, the trial will require time, and a summary trial will not be conducted. If the trial commences, the accused will be given time to engage lawyers.

At this point, the requesting party’s lawyer requested the court to halt the proceedings of military courts until the next hearing, but the court rejected this request.

Chief Justice Omar Ata Bandial, while giving instructions, said that we are not issuing a stay order at the moment. Provide the accused with a charge sheet. It will be available soon after Eid. If there is any progress, it can be communicated.

At this point, the Chief Justice inquired from the Attorney General if the accused in the current case is charged with a death penalty. The Attorney General stated that the death penalty can only be imposed in cases involving non-national connections.

Earlier, Justice Mazhar Naqvi inquired from the PTI Chairman’s lawyer if bail is possible in the Official Secrets Act.

Advocate Azhar Bhandari stated that many facts have been acknowledged in this case, and from these acknowledged facts, innocence can be established. The accused should have an open public trial, and journalists should be allowed to report on the trial. Along with this, the lawyer for PTI Chairman has submitted complete arguments, and after that, a request…

Also Read

Click here

.

فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کے استدعا مسترد

سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی. اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کی. عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوںکی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی. اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتےتک ملتوی کر دی۔

نصف گھنٹے کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے کے بعد جسٹس یحییٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو ہدایت کی کہ آپ ہمیں مکمل حقائق دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے تحریری معروضات سمیت تمام تفصیلات فراہم کر دی ہیں. اور فائل چیف جسٹس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کا واقعہ ہوا جس کے بعد ملزمان کی حوالگی کاعمل شروع ہوا. ساری کارروائی کا بیشتر حصہ رولز میں موجود ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حراست میں لینے کے عمل میں قانونی تقاضے پورے کئے گئے؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس فائل میں 102 افراد کی مکمل تفصیل اس میں موجود ہے. اہلخانہ کی زیر حراست افراد سے ہفتے کی بنیاد پر ملاقات ہو سکتی ہے۔ والدین اور دیگر اہلخانہ ہفتے میں ایک بار متعلقہ افسر کو درخواست دے کر مل سکتے ہیں. ملزمان کو خوراک کی فراہمی کا کوئی ایشو نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو اہلخانہ سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے. ہر ملزم کو بات کرنے کے لیے کچھ منٹس دیے جاتے ہیں.آپ نے خود کہا کہ ملزمان پر ابھی الزامات نہیں لگائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کہ جب ملزمان پر چارج نہیں تو انہیں نامزد کیسے کیا گیا؟ پہلے یقینی بنائیں زیر حراست افراد کی والدین سے بات ہو جائے. جب کہ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سادہ سوال ہے حراست میں موجود لوگوں کی فہرست پبلک کیوں نہیں کر دیتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فہرست پبلک کرنے کیلیے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا. جب کہ صحت کی سہولت سب زیر حراست ملزمان کومل رہی ہیں. اور ڈاکٹرز موجود ہیں. جب کہ انہیں خوراک کا بھی کوئی ایشو نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی ان کی شکایت کا ازالہ ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا کو مکمل تحفظ ملنا چاہیے. اور عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے. اور ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آج ہی ملزمان کا ان کے اہلخانہ سے رابطہ کرایا جائے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی کہ قانون کے مطابق ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ ابھی ملزمان سے تحقیقات جاری ہیں. یہ تحقیقات حتمی ہو بھی جائیں تب بھی ٹرائل میں وقت درکار ہوگا. اور سمری ٹرائل نہیں کیا جائے گا اور اگر ٹرائل شروع ہو بھی گیا تو ملزمان کو وکلا کرنے کی مہلت دی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل سے متعلق فی الحال حکم امتناع جاری نہیں کر رہے۔

اس موقع پر درخواست گزار خواجہ احمد حسین کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کی کارروائی روک دے. اور حکم کر دیں کہ اس کیس کے دوران کسی سویلین کا ٹرائل نہ ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کا کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا. تمام افراد صرف تحویل میں ہیں تحقیقات ہو رہی ہیں. کسی کو سزائے موت نہیں سنائی گئی، نہیں معلوم کہ اگلے دو ہفتے تک تحقیقات کہاں تک پہنچیں گی۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کم از کم اٹارنی جنرل کی اسٹیٹمنٹ کو حکم نامے کا حصہ بنایا جائے. جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ فوجی تحویل میں افراد کو وکیل کا حق دیاجائیگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وکیل کا حق تو قوانین کے تحت ملنا ہی ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ ملزمان میں سزائے موت کا ملزم ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سزائے موت صرف غیرملکی رابطوں کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کو چارج کی نقول فراہم کی جائیں۔ عید کے فوری بعد دستیاب ہوں گا، کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل جسٹس مظاہر نقوی نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہو سکتی ہے. لیکن ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں. ایکٹ میں ترمیم سے تحفظ پاکستان ایکٹ ضم کر کے دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں. اور 2017 میں ترمیم کر کے 2 سال کی دہشت گردی کی دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتا ہے؟ قانون میں سقم ہے اور یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی آر دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی. مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے. آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے. اس موقع پر انہوں نے شاعر احمد فراز اور سیف الدین سیف کے کیسز کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ احمد فراز پر الزام لگا تھا مگر ان کو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے. اٹارنی جنرل سے ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو والدین کیلیے فائدہ مند ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہی نہیں تھا. ان پر تو پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو سمجھ آتی ہے پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں. اور ان سے تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے۔ ملزمان کا اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیے. صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد درخواست گزار زمان وردگ نے تحریری دلائل جمع کرا دیے۔

0 0 votes
Total
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments